پشاور میں افغان پناہ گزین پر تشدد کا معاملہ: ایس ایس پی آپریشنز ظہور بابر آفریدی عہدے سےفارغ

پاکستان کے شہر پشاور میں ایک شہری پر تشدد اور اسے نیم برہنہ کر کے ویڈیو بنانے کے معاملے میں ایس ایس پی آپریشن پشاور ظہور بابر آفریدی کو عہدے سے ہٹا کر سینٹرل پولیس آفس رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ان کی جگہ ڈی پی او بنوں یاسر آفریدی کو ایس ایس پی پشاور تعینات کر دیا گیا ہے مذکورہ شخص کے خاندان کے افراد نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کا اصل نام ردیع اللہ عرف عامر ہے اور یہ افغان پناہ گزین ہے۔

یہ معاملہ چند روز قبل ایک شخص کی ویڈیو سے شروع ہوا تھا جس میں اس نے پولیس اہلکاروں کے بارے میں نازیبا گفتگو کی تھی۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تھانہ تہکال کی پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تھا اور پھر اس کی نیم برہنہ ویڈیو سامنے آئی۔

یہ ویڈیو منظرِ عام پر آنے کے بعد سوشل میڈیا پر پشاور پولیس کو تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا اور بدھ کو پولیس حکام نے کارروائی کرتے ہوئے پولیس انسپکٹر اور اہلکاروں کو معطل کر کے انھیں گرفتار کر لیا ہے-ٓ

جو ایس ایس پی ظہور بابر کی زیر سرپرستی بے گناہ شہریوں پر تشدد کیا کرتے تھے-

تشدد سے متاثر ہونے والے شخص کے رتہ داروں نے ایشیا نیوز کو بتایا کہ  آج افغان قونصل خانے کے حکام نے عامر اور ان کے اہلخانہ سے رابطہ کیا ہے اور صبح افغان سفیر بھی پشاور پہنچ رہے ہیں۔

چند روز پہلے سوشل میڈیا پر ایک ایسی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند لڑکے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں اور ان میں ایک اپنا تعارف پشتو زبان میں یہ کہہ کر کرواتا ہے کہ ’میں تہکال کا عامر ہوں۔‘

تہکال پشاور کی یونیورسٹی روڈ پر ایک علاقہ ہے جہاں بیشتر آبادی ارباب خاندان کی ہے۔

اس ویڈیو میں مذکورہ لڑکا پولیس افسران کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ پولیس اس کا کیا کر سکتی ہے۔ ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد مقامی پولیس نے ایس ایچ او کی زیر نگرانی کارروائی کرتے ہوئے اس شخص کو گرفتار کر لیا تھا۔

اس کے بعد ان کی ایک تصویر اور مختصر ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کے چہرے پر تشدد کے نشان دیکھے جا سکتے تھے اور ویڈیو میں وہ معافی مانگتا ہے اور کہتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے۔

یہ ویڈیو اور تصویر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوئی جس میں کچھ لوگ عامر کے رویے پر سخت تنقید کرتے رہے لیکن بیشتر لوگوں کا موقف تھا کہ عامر نے جو حرکت کی اس کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے تھی اور پولیس کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو تھانے لے جا کر اس پر تشدد کرے اور خود ہی اسے سزا دے۔

یہ معاملہ سوشل میڈیا پر پولیس پر تنقید اور کچھ بحث کے بعد ٹھنڈا پڑا ہی تھا کہ ایک اور ویڈیو سامنے آئی جس میں عامر کو نیم برہنہ دیکھا جا سکتا ہے اور اہلکار اس پر آوازیں کستے سنے جا سکتے ہیں۔

اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پولیس حکام متحرک ہوئے اور اس بارے میں پہلے انسپکٹر جنرل پولیس اور اس کے بعد ایس ایس پی کی جانب سے کارروائی کرنے کے بیانات سامنے آئے اور پھر ان متعلقہ پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا گیا۔

عامر کے بارے میں ایسی اطلاعات ہیں کہ وہ پشاور میں ایک شادی ہال میں بیرے کے طور پر کام کرتا تھا لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے شادی ہالوں کی بندش کے بعد وہ تین ماہ سے بےروزگار تھا۔

اس بارے میں تصدیق کے لیے عامر یا اس کے خاندان کے افراد سے رابطے کی کوشش کی گئی تو انھوں نے بات کرنے سے انکار کر دیا۔

Related posts

Leave a Comment