تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملتان ایک شہر ہی نہیں ایک تہذیب اور ایک سلطنت کا نام بھی ہے۔قلعہ ملتان ایک اندازے کے مطابق 1000 قبل مسیح میں تعمیر ہوا۔ جسے برطانوی افواج نے تباہ کردیا تھا۔ اس کے 4 دروازے تھے جس میں سے صرف ایک ـ ’قاسم گیٹ ‘ ہی سلامت بچا ہے۔اس زمانے میں دریا راوی قلعے کے ساتھ بہتا تھا۔ اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی۔ کشتیوں کے ذریعے ایران ،عراق، دلّی اور دکّن تک تجارت ہوتی تھی۔اس طرح ملتان کو ایک بڑے تجارتی، علمی اور مذہبی مرکز کی حیثیت حاصل تھی۔ سنسکرت زبان میں ’’پُور‘‘ کا لفظ ان شہروں کیلئے استعمال کیا گیا ہے جہاں کوئی بڑا کوٹ‘ قلعہ یا گڑھی ہوا کرتی تھی۔ یوں تو قدیم عہد میں ملتان شہر کے مختلف نام رہے ہیں لیکن مؤرخین کا جن دو ناموں پر اتفاق رہا ہے وہ مول استھان پورہ اور کیسپ پورہ یا کشپ پورہ ہی ہیں۔ اس لئے قیاس کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ کے نامعلوم عہد میں بھی ملتان میں قلعہ موجود تھا۔ملتان شہر کی قدامت کی بڑی نشانی قلعہ کہنہ ملتان ہی ہے‘ ملتان کا یہ منہدم قلعہ شہر کے تاریخی، مذہبی، روحانی اور ثقافتی شکوہ کی بھی علامت ہے۔ ملتان کا مرکزی شہر اور قلعہ ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے جس کے نیچے صدیوں نہیں بلکہ قرنوں کی راکھ اور خاک ہے۔ یہ شہر اور اس کا محافظ قلعہ صدیوں تک وقت کے ہاتھوں اُجڑتا اور بنتا رہا لیکن تاریخ کے کسی بھی عہد میں لوح زمانہ سے اس کا وجود نہ مٹ سکا اور نہ ہی یہ شہر کسی صورت اپنی انفرادیت کھو سکا‘ آج بھی قلعہ کہنہ کی بلندی سے نظارگی کی جائے تو تاریخ اس شہر کے قدموں سے لپٹی دکھائی دیتی ہے۔
اس حوالے سے مرزا ابن حنیف اپنی کتاب ’’سات دریاؤں کی سرزمین‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ملتان کے موجودہ مقام پر پہلی بستی کم از کم ساڑھے 5 ہزار سال قبل کے لگ بھگ ان دنوں بسائی گئی جب وادی سندھ کے مختلف علاقوں جلیل پور‘ لیہ‘ وہنی وال‘ رحمان ڈھیری‘ ہٹھالہ‘ گوملا‘ کوٹ ڈیجی‘ موہنجوداڑو‘ ہڑپہ اور کلی گل محمد میں بھی ایسی ہی چھوٹی چھوٹی ان گنت بستیاں آباد ہوئیں، یہ سب بستیاں زراعت کاروں کی تھیں۔ ناصرف پاکستان بلکہ بھارت اور بنگلہ دیش میں بھی اتنا بڑا اور اہم شہر کوئی اور نہیں جو ملتان کی طرح 5 ہزار سال سے آباد چلا آ رہا ہو۔ پاکستان کے دو معروف ترین قدیم شہر ہڑپہ اور موہنجوداڑو کوئی ساڑھے 3 ہزار برس پہلے آخری تباہی سے دوچار ہوئے تو پھر آباد ہی نہ ہو سکے، البتہ ملتان وہ منفرد شہر ہے جو مستقل طور پر زوال آشنا تو کیا ہزاروں برس سے برابر ترقی اور سربلندی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔۔372ہجری کتاب ’’حدود العالم بن المشرق الی المغرب‘’ میں ملتان کی حدود بارے لکھا ہے کہ قنوج کے راجہ اور امیر ملتان کی سرحدیں جالندھر پر ختم ہوتی تھیں’’ سیر المتاخرین‘‘ میں اقلیم ملتان کی حدود اس طرح بیان کی گئی ہیں کہ ملتان اول دوم و سوم اقالیم سے زیادہ فراخ ہے کیونکہ ٹھٹھہ اس صوبہ پر زیادہ ہوا ہے فیروز پور سے سیوستان تک چار سو تیس کوس لمبا اور چتوڑ سے جیسلمیر تک ایک سو آٹھ کوس چوڑا ہے دوسری طرف طول کیچ اور مکران تک چھ سو ساٹھ کوس ہے اس کے خاور ﴿مشرق رویہ سرکار سرہند سے ملا ہوا ہے شمالی دریائے شور میں اور جنوبی صوبہ اجمیر میں ہے اور باختر،مغرب میں کیچ اور مکران ہے ۔ ابوالفضل نے اپنی مشہور عالم کتاب آئین اکبری میں ملتان کی حدود یہ بیان کی ہیں ، صوبہ ملتان کے ساتھ ٹھٹھہ کے الحاق سے پہلے یہ صوبہ فیروز پور سے سیوستان تک ۶۲۴کروہ تھا چوڑائی میں کھت پور سے جیسلمیر تک۶۲۱ کروہ تھا ٹھٹھہ کے الحاق کے بعد یہ صوبہ کیچ اور مکران تک وسیع ہوگیا ، اس کا یہ فاصلہ ۰۶۶ کروہ تھا ، مشرق میں اسکی سرحدیں سرہند سرکار سے شمالی میں پشاور سے جنوب میں اجمیر کے صوبے اور مغرب میں کیچ مکران سے ملتی تھیں ، کیچ اور مکران پہلے صوبہ سندھ میں شامل تھے ملتان کے صوبے میں تین سرکاریں ملتان خاص دیپال پور اور بھکرتھیں اور کل اٹھاسی پراگنے اورضلعے تھے۔ ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے ، ملتان کے قدامت کے ہم پلہ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ہو ، پاکستان میں جن شہروں کو مصنوعی طریقے سے ملتان سے کئی گنا بڑے شہر بنایا گیا ہے، آج سے چند سو سال پہلے یہ ملتان کی مضافاتی بستیاں تھیں اس بات کی شہادت حضرت داتا گنج بخش(رح) نے اپنی کتاب ’ ’’کشف المجوب‘‘ میں ’’لاہور یکے از مضافاتِ ملتان‘‘ فرما کر دی ہے ۔
محققین کو اس بات پر غور کرنا چاہئیے کہ دنیا کی امیر کبیر شہر ، دنیا کی بہت بڑی تہذیب ، دوسرا سب سے پرانا قدیم شہر اور دنیا کی بڑی سلطنت کو گورستان میں کس نے تبدیل کیا ؟ ایک وقت تھا جب یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی تھی اور عروس البلد لاہور اس کا ایک مضافاتی علاقہ ہوتا تھا۔ ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال، لودھراں، مظفرگڑھ اور بھکر تمام اس کے علاقے تھے۔ مگر یہ تاریخی شہر رفتہ رفتہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا۔تاریخی سلطنت (صوبہ ملتان) اور آج تین تحصیلوں تک محدود ہوگیا ہے۔ملتان کے معروف شاعر خلیق ملتانی کی طویل نظم ’’تصویر ملتان‘‘ جو 1947ء میں شائع ہوئی تھی کا دیباچہ مولانا ظفر علی خان نے تحریر کیا تھا، اس نظم میں ملتان کے تاریخی واقعات کو ایک خاص تاریخی شعور کے ساتھ نظم کیا گیا تھا، ایک بند ملاحظہ ہو:
تو سُنا اے آسماں تجھ کو فسانہ یاد ہے
کھینچ کر کس کس کو لایا آب و دانہ یاد ہے
یاد ہے‘ تاتاریوں کا بھی زمانہ یاد ہے
یاد ہے اسکندر اعظم کا آنا یاد ہے
آج تک چرچا ہے جس کی تیغ عالمگیر کا
ایک پہلو یہ بھی ہے ملتان کی تصویر کا